گمنام لوگوں کو دفناتا تھا تو وہ خواب میں آتے تھے

آج کی مصروف ترین دنیا میں کوئی شخص برس ہا برس تک انجانی اور نامعلوم لاشوں کو سپردِ خاک کرتا رہا۔ شاید آپ اس بات پر یقین نہ کریں۔

آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والے عطا محمد نے 11 سال تک وادی کے محکمہ بجلی میں کام کیا تھا
لیکن بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں اگر آپ کسی سے پوچھیں، تو ہر کوئی آپ کو عطا محمد خان کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور بتائے گا۔ جتنے منہ اتنی باتیں.یہی وجہ ہے کہ جب 75 سال کی عمر میں عطا محمد خان کا انتقال ہوا تو سری نگر سے 90 کلومیٹر دور اڑی کے بمبیارگاؤں میں ان کے گھر لوگوں کا ہجوم تھا۔عطا محمد گذشتہ تین سال سے گردے کی بیماری کا شکار تھے۔ وہ گذشتہ کئی سال سے نامعلوم لاشوں کو سپردِخاک کرنے کے لیے قبریں کھودنے کا کام کر رہے تھے۔آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والے عطا محمد نے 11 سال تک وادی کے محکمہ بجلی میں کام کیا تھا۔ بعد میں ان کی ملازمت تو نہیں رہی لیکن قبریں کھودنے کا سلسلہ نہیں تھما۔انھوں نے سنہ 2002 سے 2007 کے درمیان چچل بمبیار گاؤں میں 235 ایسی قبریں ان لوگوں کے لیے كھوديں، جن کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔عطا محمد کے بڑے بیٹے منظور احمد خان بتاتے ہیں، ’اس زمانے میں یہاں انکاؤنٹر بہت زیادہ ہوتے تھے اور بھارتی فوج اور پولیس کے لوگ ہر دن والد صاحب سے قبریں کھودنے کے لیے کہتے تھے۔
منظور نے بتایا کہ جب بھی ان کے والد کسی نامعلوم شخص کی قبر کھودتے اور اس دفناتے، اس کے بعد وہ بہت پریشان رہتے تھے۔منظور کے مطابق، ’وہ اکثر کہتے کہ جن گمنام لوگوں کو میں دفناتا ہوں، وہ میرے خواب میں آتے ہیں جو لاشیں ان کے پاس لائی جاتی تھیں، ان میں سے کوئی جلی ہوتی تھی تو کسی کا چہرہ نہیں ہوتا تھا. ان حالات میں ان کے کے دل اور دماغ پر کافی دباؤ رہتا تھا۔ منظور احمد کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کی وراثت آگے بڑھائیں گے۔منظور نے بتایا کہ فوج اور پولیس نے ان کے والد کو کبھی قبریں کھودنے کا معاوضہ نہیں دیا، بلکہ الٹا وہ انہیں دھمکیا کرتے تھے۔عطا محمد کے رشتہ دار اور گاؤں کے مفتی قیوم خان کئی بار عطا محمد کے ساتھ قبرستان جاتے اور لاشیں دفنائے جانے تک ان کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا ان کے ساتھ گہرا لگاؤ تھا۔ کبھی کبھی وہ مجھے اس وقت بلاتے جب ان کو کسی گمنام لاش کی تدفین کرنی ہوتی تھی۔

Comments