’بائیک چلانے کا شوق مجبوری بن گیا‘
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا بحران معمول کي بات ہے جس سے ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات بھی متاثر ہوتی ہیں۔ معاشرے میں قبولیت نہ ہونے کی وجہ سے دنیا کے دیگر بڑے شہروں کے برعکس یہاں خواتین موٹر سائیکل نہیں چلاتیں، لیکن کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو اس روایت کو توڑ رہی ہیں۔
کراچی میں ایسی ہی ایک باحوصلہ اورپُرعزم خاتون مہوش اخلاق ہیں جو تین سالوں سے موٹر سائیکل چلا رہی ہیں۔ اس کام کے لیے ان کےمرحوم شوہر نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ شوہر نے سکھائی بائیک چلانا۔ مجھےکہتے تھےکہ جینز اور ٹی شرٹ اور ہیلمٹ پہنواور بالکل ایزی ہوکر چلاؤ۔ کسی کی پرواہ مت کرو کہ کون تمھیں دیکھ رہا ہے۔اُس وقت شوقیہ بائیک چلاتی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ان کا انتقال ہوجائےگا اور بائیک چلانا میری ضرورت اور مجبوری- مہوش اخلاق کے خیال میں کراچی کی سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کے انتظار میں سڑکوں پر پریشان ہونے اور ٹریفک میں پھنس کر ہر جگہ دیر پہنچنے سے بہتر ہے کہ ہر لڑکی سکوٹی یا موٹر سائیکل چلانا شروع کردے۔ پہلے میں 70 سی سی چلایا کرتی تھی۔ پھرکسی نے کہا کہ سکوٹی خواتین کے لیے بہتر ہے۔ میں نےخصوصی طور پر ملائشیا سے سکوٹی منگوائی۔اب میں ہرجگہ سکوٹی پہ جاتی ہوں۔ چاہے پھر مجھے یونیورسٹی جاناہو، کوچنگ جاناہو، شاپنگ سینٹر، حتی کہ اپنےآفس یا ورک شاپ جہاں میں کام کرتی ہوں، وہاں آناجانا ہو۔اس کے علاوہ آفس کے کاموں کے سلسلے میں بنک یا فیکڑیوں میں بھی میں اپنی سکوٹی یا پھر موٹر سائیکل پہ ہی جایا کرتی ہوں۔
مہوش کے بقول وہ اس بات پر مکمل طریقے سے قائل ہیں کہ سڑکوں پراحتیاط برتی جائے |
وہ بتاتی ہیں کہ شوہر کے انتقال کے بعد اکیلے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے گھبراتی تھیں اور ڈرتی تھیں کہ لوگوں کا اس پر کیا ردعمل ہوگا لیکن ان کے بقول ہوا اس کے برعکس۔ میں جب روڈ پہ گئی تو لوگوں نےمجھےدیکھ کے، سلیوٹ مار کے تعریف کی۔ تین ساڑھے تین سالوں سے سڑکوں پہ بائیک چلارہی ہوں لیکن اب تک کسی نے نہ ہی کوئی جملہ کسا، نہ ہی کوئی بُری بات کہی۔ شاپنگ سینٹر ہو یا بنک، جہاں جاتی ہوں پروٹوکول ملتاہے۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’پٹرول پمپ پر یہ کہہ کر سب سے پہلے جگہ اور باری دے دی جاتی ہے کہ بھئی لیڈی ہے۔ اسی طرح سڑکوں پہ لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے لڑ رہے ہوتے ہیں لیکن مجھے دیکھ کر رستہ دے دیتے ہیں۔‘کراچی کے بے ہنگم ٹریفک میں موٹر سائیکل کی سواری ایک خطرے سے خالی کام نہیں ہوا کرتا۔ مہوش کے بقول وہ اس بات پر مکمل طریقے سے قائل ہیں کہ سڑکوں پراحتیاط برتی جائے۔
’میں جب بھی بائیک یا سکوٹی چلاتی ہوں تو لازماً ہیلمٹ، جیکٹ نما اپر، دستانےاورحفاظتی جوتے پہنتی ہوں۔اس کی وجہ سے خود کو بہت محفوظ محسوس کرتی ہوں۔‘کراچی میں شہری منصوبہ بندی اور تعمیرات کےماہر عارف حسن نے کراچی میں ماضی میں کیے گئے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’بس اسٹاپس پہ کھڑی ہونے والی خواتین میں سے55 فیصد موٹرسائیکل چلانا چاہتی ہیں اگر انھیں اس کی اجازت اور سہولت مل جاتی ہے تو وہ میرے خیال میں خواتین موٹر سائیکل ضرور چلائیں گی۔
Comments
Post a Comment